کوئی ایک آدھ آدمی/ مظہر برلاس


 پاکستان کی سول سروس میں کوئی نہ کوئی قدرت اللہ شہاب یا نسیم انور بیگ جیسا آدمی آہی جاتا ہے۔ ان جیسے اور بھی کردار ہوں گے مگر صرف دو کا حوالہ دے رہا ہوں کہ لوگ قدرت اللہ شہاب کو خوب جانتے ہیں، نسیم انور بیگ تو ابھی کل تک محفل جمایا کرتے تھے، گفتگو پاکستان کے گرد گھومتی تھی، دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں کا تذکرہ ہوتا تھا، شہاب نامے کے کئی واقعات لوگوں کا ایمان تازہ کرتے ہیں

۔ عجیب بات ہے جو بھی




 پاکستان سے محبت کرتا ہے، قدرت اس کا نام روشن کردیتی ہے اور جو کوئی پاکستان سے بددیانتی کرتا ہے، رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج میں عہدِ حاضر کی بیوروکریسی میں شامل ایک شخص کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں، ہو سکتا ہے میں اس کا نام نہ لکھ سکوں مگر اس کے حالات سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ قدرت کیا کر سکتی ہے، تلخیوں کا دریا عبور کرنے والے کس طرح پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔یہ شخص سندھ کے ضلع خیرپور کے ایک عام سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ ان کے گھر میں غربت انتہائوں کو چھو رہی تھی، یہ شخص بھوک، افلاس اور بےبسی میں پیدا ہوا۔ بچپن میں شوق پیدا ہوا کہ تعلیم حاصل کی جائے مگر سوال یہ تھا کہ شوق کی تکمیل کیسے ہو؟ اپنے گاؤں میں تو پرائمری اسکول بھی نہیں تھا ، ہاں چند کلومیٹر دور دوسرے گاؤں میں ہے۔ اس نے بھوک، افلاس اور بےبسی کےسامنے ہمت کو رکھ دیا۔ وہ دوسرے گاؤں میں گیا اور پہلی جماعت میں اپنا نام لکھوا آیا۔ اب ایک اور مرحلہ تھا کہ بستہ اور بستے کی چیزیں کہاں سے پوری کی جائیں؟ وہ ہر روز کلاس میں جاتا، کاپی، قاعدے اور بستے کی وجہ سے مار کھاتا، سبق دوسروں کی کتاب دیکھ کر یاد کر لیا کرتا۔ استاد اسے مارتا اور پوچھتا... ’’بستہ کیوں نہیں لائے، قاعدہ کہاں ہے، کاپی کدھر ہے؟...‘‘ وہ استاد کے سامنے خاموش رہتا۔ اسے مار پڑتے ہوئے کئی دن بیت گئے تو ہیڈ ماسٹر کو پتہ چل گیا کہ ہمارے اسکول میں ایک لڑکے کو مار محض اس لئے پڑتی ہے کہ اس کے پاس نہ بستہ ہے، نہ کتابیں۔ ہیڈ ماسٹر نے لڑکے کو بلوایا اور بستہ، کاپی، کتاب کے لئے کچھ پیسے دیے مگر لڑکے نے انکار کردیا، کہنے لگا... ’’جناب عالی! میری غیرت اجازت نہیں دیتی کہ یہ پیسے لوں، میں 14اگست کو تقریری مقابلے میں حصہ لوں گا، انعام جیتوں گا اور انعام کی رقم سے یہ سب چیزیں خرید لوں گا...‘‘ ظالمانہ رویہ رکھنے والے ماسٹر کو ہیڈ ماسٹر کی اس کرم نوازی کا علم ہوا تو اس نے لڑکے پر مزید ڈنڈے برسانا شروع کردیے۔ بس پھر ایک دن 14اگست آگیا، اس نے تقریری مقابلے میں حصے لیا، وہ جیت گیا لیکن وہی استاد ججوں میں شامل تھا، سب نے کہا کہ یہ لڑکا پہلے نمبر پر ہے مگر جج صاحب نے اسے دوسرے نمبر پر کردیا۔ اسے دوسرا انعام ملا اور سچل سرمست کی دھرتی کے فرزند نے استاد کی عزت کی خاطر اسے قبول کر لیا۔پرائمری پاس کی تو مڈل اسکول کے لئے تھوڑا اور دور جانا پڑا۔ وہاں صرف کتابوں کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ فیس بھی درکار تھی۔ اس نے جمع شدہ انعامی رقم سے فیس تو ادا کردی مگر کتابیں نہ لے سکا، کتابوں کی خریداری کے لئے اسے پھر سے 14اگست کا انتظار کرنا پڑا۔ مڈل کے بعد میٹرک کے لئے کوٹ ڈیجی جانا پڑا۔ اب اس نے اتنی رقم جمع کررکھی تھی کہ فیس اور کتابوں کا مسئلہ حل ہو گیا۔ ایف ایس سی میں خیر پور داخل ہوا تو پھر غریبی راہ میں حائل ہو گئی، اب فیس اور کتابوں کے علاوہ ہوسٹل

Hostel

 کے اخراجات کا بھی سامنا تھا، یہاں بس تھوڑی دیر رہا اور گمبٹ میں داخلہ لے لیا، گمبٹ، خیر پور کی ایک تحصیل ہے، داخلہ ہو گیا مگر رہنے کا مسئلہ تھا پھر ماموں کی سفارش پر ایک صاحب نے رہائش دی لیکن یہ رہائش عجیب تھی، لڑکے کو بھینسوں کے باڑے میں سونا پڑتا، ہاں کھانا اسے مل جاتا تھا۔ یہاں اس نے ٹیوشنز پڑھائیں اور بی ایس سی کر گیا۔ بس وہ اتنا ہی پڑھ سکتا تھا، اس پر پہاڑ جتنی ذمہ داریاں تھیں، اس نے فارما سیوٹیکل کمپنی جوائن کی مگر یہاں اس کی دیانتداری آڑے آگئی، اس کا کہنا تھا کہ...’’جب ہماری دوائیاں اچھی ہیں تو ہم ڈاکٹروں کو پیسے کیوں دیں یا پھر ہماری دوائیاں اچھی نہیں ہیں، اس لئے ہم ڈاکٹروں کو پیسے دیتے ہیں...‘‘اس سوال کا جواب نہ ملا تو نوکری چھوڑ دی، اس نے اس طرح کی تین نوکریاں چھوڑیں پھر لاڑکانہ سے ایک اخبار شروع کیا، اخبار کےذریعے کرپشن کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تو مافیا سرگرم ہوگیا، اخبار کو کہیں سے کوئی اشتہار نہیں ملتا تھا، اسے بند کرنا پڑا۔



اب نوکری کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، اس نے سی ایس ایس کا امتحان دیا، پاس کیا تو فارن سروس کا گروپ ملا، وہ دفتر خارجہ میں گیا، اس کی ڈیوٹی ایک بابو کے ساتھ لگائی گئی، بابو نے معذرت کی کہ یہ لڑکا کسی بڑے تعلیمی ادارے سے نہیں پڑھا، میں اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا، ایک کے بعد دوسرے بابو نے انکار کیا تو ڈائریکٹر ایڈمن

Director Admin

 کہنے لگا... ’’ بجٹ میں کوئی شخص نہیں جاتا، میں آپ کو بجٹ میں بھیج رہا ہوں‘‘ ...یہ بجٹ سیکشن میں چلا گیا، محنت نے رنگ دکھانا شروع کیا، اس وقت سیکرٹری خارجہ انعام الحق تھے، جب بھی ضرورت ہوتی انعام الحق اپنے اسٹاف سے کہتے... ’’نہ ڈی جی کو بلائو اور نہ ہی ڈائریکٹر کو، بس اس نوجوان سندھی سیکشن افسر کو بلا لو، اسے سب کچھ زبانی یاد ہے... ‘‘ اس کے بعد ’’انکاری بابوئوں‘‘ نے کہا ہمارے ساتھ آجائو مگر پھر اس کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔یہ شاندار افسر اب بھی وزارت خارجہ میں ہے، اسے کسی بڑے ملک میں اس لئے نہیں بھیجا جاتا کہ اس کی لابنگ نہیں۔ وہ پاکستان سے محبت کرتا ہے، ہر وقت ملک کا سوچتا ہے، وہ جہاں جاتا ہے وہیں پاکستان کا نام روشن کردیتا ہے مگر اسے ایسے حالات کا سامنا ہے کہ بقول منیر نیازی ؎اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا


نام بتائے دیتے ہیں

ا مظہر برلاس

پچھلے ہفتے وزارتِ خارجہ کے ایک افسر پر کالم کیا لکھا کہ ملک و بیرون ملک سے بےشمار قارئین نے پاک دھرتی کے اس ہیرے کا نام پوچھا جس نے غربت کی کوکھ میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور پھر سی ایس ایس کرکے شاندار خدمات انجام دے رہا ہے۔کالم کی طوالت کے خوف سے کچھ باتیں رہ گئی تھیں، پہلے وہ باتیں پھر کام اور پھر نام۔وہ غریب ضرور تھا مگر کلاس میں اول آتا تھا۔ کالج دور میں وہ مچھروں والی جگہ، بھینسوں کے باڑے میں سوتا تھا لیکن کلاس میں سی آر تھا، وہ اساتذہ کو پیریڈ میں لیٹ نہیں ہونے دیتا تھا۔کالج کے کئی لیٹ آنے والے ٹیچر اُس سے نالاں تھے مگر وہ اس ناراضی کی پروا نہیں کرتا تھا بلکہ اس کا موقف تھا کہ جب اساتذہ حکومت سے تنخواہ لیتے ہیں تو انہیں پڑھانا بھی چاہئے۔ ان اساتذہ 

نے سارا غصہ پریکٹیکلز

Practicals



 کے وقت نکالا اور اسے بہت کم نمبر دے کر صرف پاس کیا۔دورانِ تعلیم اس نے نوکری کے لئے کوشش کی مگر ناکام رہا کہ سفارش ہی نہیں تھی، اس نے پرائمری اسکول کا ٹیچر بننا چاہا تو ناکامی ملی پھر ہائی اسکول کا استاد بننا چاہا مگر یہاں بھی کامیابی نہ مل سکی۔ان ناکامیوں کے باوجود اس نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا، جب وہ کالج سے یونیورسٹی گیا تو داخلہ فیس کے لئے ڈھائی سو روپے نہیں تھے، والد سے کہا تو انہوں نے کہا کہ ’’بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے مزدوری کرتا ہوں، میرے پاس ڈھائی سو روپے نہیں ہیں‘‘ باپ کا جواب سن کر اس نے کہا کہ ’’کچھ بھی ہو جائے میں نے پڑھنا ہے‘‘۔بیٹے کا تعلیمی شوق دیکھ کر باپ نے ڈھائی سو روپیہ مجبوراً سود پر لیا اور بیٹے کو داخلہ فیس دے دی مگر صرف ڈھائی سو روپے سے کام کیسے چلتا؟ یہاں تو ہوسٹل میں رہنا تھا، تعلیمی اخراجات بھی تھے۔اس نے اس کا بھی حل نکالا، وہ سیدھا یونیورسٹی

University

 کی مسجد کے امام کے پاس گیا، اسے کہا کہ رہنے کیلئے جگہ چاہئے۔ امام مسجد نے اس شرط پر رہنے کی اجازت دی کہ اسے کچھ بچوں کو پڑھانا ہوگا۔ خیر رہائش مل گئی مگر کچھ عرصے بعد اس نے یونیورسٹی کے طلبا کے لئے سائنس لیبارٹری کی اشیاء کا مطالبہ کر دیا۔وائس چانسلر کو پتہ چلا کہ یہ لڑکا یونیورسٹی کی سینٹرل مسجد میں رہتا ہے تو وی سی بہادر کا اختیار جاگا، اس نے امام مسجد کو بلوایا اور کہا کہ اس لڑکے کو فوراً نکال دو، ورنہ تمہاری نوکری ختم۔ امام مسجد نے نوکری بچائی اور اس لڑکے نے بھی کہیں اور بندوبست کر لیا۔وہ تین برس یونیورسٹی میں پڑھا اور ان تین برسوں میں وہ صرف دوپہر کا کھانا کھاتا تھا، ایسا نہیں تھا کہ وہ یہ کام شوق سے کرتا تھا، اس کی غربت تین وقتوں میں صرف ایک وقت کے کھانے کی اجازت دیتی تھی۔ اس دوران اس کا وزن ہمیشہ 45سے 48کلو کے درمیان رہا۔وزن خاک پورا ہوتا، جب کھانا ہی ایک وقت ملتا ہو تو پھر انڈر ویٹ ہونا تو یقینی ہو جاتا ہے۔ ان تین برسوں میں ایک دن ایسا آیا کہ اس کے پاس دوپہر کے کھانے کے لئے بھی پیسے نہ رہے۔ جب ہر طرف بےچارگی نظر آئی تو وہ اپنے خدا کے حضور پیش ہوا، اللہ سے نوکری مانگی، قدرت نے مہربانی کی تو اگلے ہی دن کوئی شخص اسے ڈھونڈتا ہوا آ گیا۔یوں اسے نوکری مل گئی، کچھ عرصے بعد یہ نوکری چھوڑ دی کہ مالکان کرپشن سے باز نہیں آتے تھے۔ پھر اخبار نکالا، پیسے ختم ہوئے Englishتو انگریزی

 زبان سکھانے کے لئے ایک لینگوئج 

Language

 سنٹر بنا لیا، ساتھ ہی یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں داخلہ لے لیا۔ اب اس کی چار ڈیوٹیاں تھیں۔اپنے بیوی بچوں کے لئے روزی روٹی کا بندوبست کرنا، لینگوئج سنٹر کو کامیابی سے چلانا، یونیورسٹی میں خود پڑھنا اور اس کے بعد سی ایس ایس کی تیاری کرنا۔ اس کا یونیورسٹی میں شعبۂ انگریزی کے سربراہ سے اختلاف ہوا، اس کا موقف تھا کہ انگریزی کے استاد ہمیں ہفتے میں صرف ایک دو دن پڑھاتے ہیں، پورے چھ دن کیوں نہیں پڑھاتے؟وائس چانسلر کچھ نہ کر سکا تو اس لڑکے نے گورنر سندھ معین الدین حیدر کو خط لکھ دیا، گورنر کی مداخلت کے بعد شعبۂ انگریزی کے اساتذہ نے پڑھانا تو شروع کر دیا لیکن شعبے کا سربراہ اس لڑکے کے خلاف ہو گیا، اس نے بڑی خاموشی سے فیڈرل سروس کمیشن کے چیئرمین کو خط لکھا کہ ’’فلاں نام کے لڑکے نے سی ایس ایس کا امتحان دیا ہے مگر وہ سندھو دیش کا حامی ہے، جئے سندھ کے لئے کام کرتا ہے‘‘۔اس نے تحریری امتحان پاس کیا، اسے انٹرویو کے وقت سارے سوال جی ایم سید، سندھو دیش اور جئے سندھ پر کئے گئے، وہ بہت حیران تھا کہ مجھے یہ سوال کیوں کئے گئے ہیں، خیر وہ کلیئر ہو گیا مگر اس کا گروپ انفارمیشن آیا لیکن اس کی خواہش فارن افیئرز تھی، اس نے دوبارہ امتحان دینے کا فیصلہ کیا، اس دوران وہ آرمی پبلک کالج پنوں عاقل میں لیکچرار بھرتی ہو گیا، اس نے وہاں ایک بریگیڈیئر کو یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی کے سربراہ کی طرف سے لکھے گئے خط کا قصہ سنایا تو فوجی سیدھا ہو گیا، اس نے اس پروفیسر کو بلا کر پوری طرح چابی دی اور کہا ’’تم نے پنجابیوں کو بدنام کیا ہے، تم ایک غیرت مند اور محب وطن سندھی کو غدار ثابت کرنا چاہتے ہو، تم سے اس کی ذہانت برداشت نہیں ہوئی‘‘۔اس چابی کے بعد پروفیسر نیا خط لکھنا بھول گیا۔ اس نے دوبارہ سی ایس ایس کیا، اس مرتبہ اسے کسی نے سندھو دیش کا نہ پوچھا، کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ جئے سندھ کونسی جماعت ہے؟ اب کی بار وہ اپنے پسندیدہ گروپ میں آ گیا۔اس نے دفتر خارجہ کو جوائن کیا تو ’’ڈومیسائل‘‘ کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ابھی تو ادھوری باتیں مکمل ہوئی ہیں، اگلے کالم میں اس مرد مجاہد کے وہ کام لکھوں گا جو اس نے وطن کی محبت میں کئے۔ ساتھ ہی اس کا نام بھی بتا دوں گا۔ فی الحال افتخار عارف کا شعر پیش خدمت ہے کہ ؎مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نےوہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے.


حصہ دوم

 گزشتہ دو کالموں میں جس شخصیت کا تذکرہ ہوا اُس سے متعلق لوگوں کی تشنگی بڑھی مگر عرض کیا تھا کہ پہلے کام پھر نام بتائوں گا۔سی ایس ایس تک پہنچنے سے پہلے اسے شدید بیماری سے گزرنا پڑا، وہ اپنے پروفیسر کے ساتھ مل کر ٹی بی پر ریسرچ کر رہا تھا کہ اسے خود ٹی بی ہو گئی، وہ بستر پر پڑا تھا تو ایک عورت نے اس کے والدین سے کہا ’’آپ کا ذہین اور خوبصورت بچہ مر رہا ہے‘‘۔آواز کان میں پڑی تو کہنے لگا ’’محترمہ! کسی بیمار سے متعلق ایسے نہیں کہتے، میں مروں گا نہیں، ان شاء اللّٰہ زندہ رہوں گا‘‘۔ اس نے دعا کی کہ اے خدا مجھے اس حالت میں موت نہ دینا بلکہ امام حسینؓ کی طرح شہادت دینا۔وہ ٹھیک ہو گیا، سی ایس ایس کر کے وزارتِ خارجہ میں گیا تو ایک صاحب اور صاحبہ نے اُسے محض ڈومیسائل کی وجہ سے قبول نہ کیا، ساتھ ہی تبصرہ فرمایا کہ یہ کسی بڑے ادارے کا پڑھا ہوا نہیں۔وہ بجٹ سیکشن میں چلا گیا، اس نے سیکرٹری خارجہ انعام الحق کو بےحد متاثر کیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ اسے وہ گائوں یاد آیا جہاں غربت کے آنگن میں آنکھ کھولی تھی، اس نے گائوں میں اسکول قائم کیا، غریب ذہین بچوں کیلئے 30فیصد کوٹہ مقرر کیا تاکہ کوئی غربت میں جنم لینے والا بچہ تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ایک کلینک بنایا کہ غریب کا علاج بھی ہو سکے، اب وہ گائوں میں ووکیشنل کالج بنوا رہا ہے، لوگوں کی خدمت کیلئے وہ سیاست کرنا چاہتا تھامگر غربت سفارت کاری کی طرف لے آئی۔شاید یہ ہمارا اکلوتا سفارت کار ہے جو اپنے بچوں کے لئے نہ کسی ملک کی شہریت چاہتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک سے کوئی ذاتی فائدہ۔ جہاں جاتا ہے صرف پاکستان اور پاکستانیوں کا سوچتا ہے، اسے کبھی ڈھنگ کی پوسٹنگ نہیں دی گئی بلکہ جہاں کوئی نہیں جاتا، اسے بھیج دیا جاتا ہے۔وہ جہاں بھی گیا مشکلات اس کی منتظر تھیں، کبھی اسے عراق بھیج دیا گیا تو کبھی یمن مگر اس نے ہمیشہ پاکستان کیلئے کام کیا۔ وہ جدہ میں قونصل جنرل نہیں بلکہ پاسپورٹ انچارج تھا، اس نے جدہ میں بڑا اسکینڈل پکڑا، پاکستانی قونصل خانے سے غیرملکیوں کو پاکستانی پاسپورٹ بیچے جاتے تھے، بڑے خریداروں میں افغانی اور برمی تھے، اس نے اسٹینڈ لیا، جونیئر افسر ہوتے ہوئے اپنے سینئر کے خلاف انکوائری کروائی اور یہ سلسلہ رکوایا، کیریئر کو دائو پر لگا کر یہ کام کیا۔اکتوبر 2005میں زلزلہ آیا تو اسے فکر لاحق ہوئی، وہ دن بھر ڈیوٹی دیتا اور شام کو زلزلہ زدگان کے لئے امدادی اشیاء اور چندہ اکٹھا کرتا۔خدمات کے صلے میں جب اعزازات کے لئے فارم بھرے جا رہے تھے تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’یہ خدمات تو میں نے اپنے ہم وطنوں کے لئے انجام دی ہیں، اس لئے نہیں کہ تمغے ملیں بلکہ اپنے لوگوں کی خدمت کرنا مجھ پر فرض ہے‘‘۔جدہ سے ٹرانسفر ہواتو پاکستانیوں نے محبت دکھائی، اس کے لئے 72تقریبات منعقد کی گئیں پھر یمن میں پوسٹنگ کر دی گئی، وہ یمن میں صرف پانچ مہینے قائم مقام سفیر رہا، اس نے پاکستان انٹرنیشنل اسکول کو بہترین بنایا اور پاکستان کی برآمدات کو ڈبل کر دیا، اس طرح وہ وزارتِ خارجہ کا پہلا افسر بنا، جن کو منسٹری آف کامرس نے آئوٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس ایوارڈ دیا۔یمن میں ایک سیاسی سفیر آ گیا، اسے آتے ہی یہ فکرمندی ہوئی کہ ڈپٹی ایمبیسڈر بہت مقبول ہے۔ یمن میں ایک سعودی اسپتال میں پاکستانی ڈاکٹروں اور نرسوں کی تنخواہیں روکی گئیں تو یہ مردِ مجاہد کھڑا ہو گیا اور ہم وطنوں کی تنخواہیں نکلوانے میں کامیاب رہا۔اس پر سیاسی سفیر نے وزیراعظم گیلانی کو خط لکھا کہ ’’ہمارے ڈپٹی ایمبیسڈر نے امریکہ کے خلاف "DEATH OF AMERICAN EMPIRE"نامی کتاب لکھی ہے‘‘، واضح رہے کہ یہ کتاب 2008میں لکھی گئی تھی۔خیر سیاسی سفیر کے کہنے پر اسے نائیجیریا ٹرانسفر کر دیا گیا، وہاں پہلے ہی سال ایکسپورٹ ڈبل ہو گئی تو منسٹری آف کامرس نے دوبارہ آئوٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس ایوارڈ دیا۔ اتنا کام کیا کہ گیارہ سو بزنس مینوں کو پاکستان بھجوایا، وفود کا تبادلہ ہوا، نائیجیریا کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان کا دورہ کرنے والے نائیجیریا کے یہ دوسرے صدر تھے۔نائیجیریا میں ایک نان کیریئر ڈپلومیٹ خائف ہوا تو الزامات کے ساتھ شکایت کر دی، اسے ہٹا دیا گیا، بحال ہوا تو نائیجیریا سے جڑے ہوئے افریقی ملک نائیجر بھیج دیا گیا، ایک سال میں وہاں سے بھارتی لابی کا صفایا کیا، پاکستان کی برآمدات کو ایک ملین سے 26ملین ڈالرز تک پہنچایا۔جب موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس مجاہد کو دیکھا تو پہلے بہت تلملائے مگر پھر کارکردگی دیکھ کر اتنے معترف ہوئے کہ سیکرٹری خارجہ سے کہنے لگے ’’مجھے اس طرح کے سفیر چاہئیں جو بظاہر درویش دکھائی دیں مگر ان کی کارکردگی شاندار ہو‘‘۔پھر سیکرٹری خارجہ نے کہا ’’یہ ہمارے زبردست اور شاندار سفیر ہیں‘‘، اس آدمی کا نام احمد علی سروہی ہے، جوآج کل نائیجر میں پاکستان کا سفیر ہے، اس کی وجہ سے نائیجر کی پارلیمنٹ کے صدر اور دو اہم وزراء پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔سولہ ستمبر کو وزارتِ تجارت یا کسی بھی وزارت کے تعاون کے بغیر پاک نائیجر ٹریڈ کانفرنس ہو رہی ہے جس کا افتتاح نائیجر کے صدر اور اختتام وہاں کے وزیراعظم کریں گے۔احمد علی سروہی اقتصادی سفارت کاری کے ماہر ہیں مگر انہیں کسی بڑے ملک میں تعینات نہیں کیا جاتا۔ اکنامک ڈپلومیسی پر ان کی کتاب باقی سفیروں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ بقول فیضؔ؎ہم خستہ تنوں سے محتسبوکیا مال منال کا پوچھتے ہوجو عمر سے ہم نے بھر پایاسب سامنے لائے دیتے ہیںدامن میں ہے مشت خاکِ جگرساغر میں ہے خون حسرت مےلو ہم نے دامن جھاڑ دیالو جام الٹائے دیتے ہیں

Share To:

frazwan

Post A Comment:

0 comments so far,add yours