We will provide you information about latest changes in the world and our country. Furthermore, you will get a chance to learn about our history, culture, folk tradition and all aspect of life through different articles and videos.
ملائیشیا میں جلاوطن بھارت کے معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اپنے بیٹے کی شادی کے لیے لڑکی کی تلاش ہے، اس کے لیے ذاکر نائیک نے فیس بک پر ایک پوسٹ بھی کی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے فیس بک پوسٹ میں لکھا ہےکہ میں اپنے بیٹے فارِق کی شادی کے لیے لڑکی تلاش کر رہا ہوں، اس کے لیے اچھے کردار والی مسلم لڑکی ڈھونڈ رہا ہوں تاکہ میرا بیٹا اور اس کی بیوی ایک دوسرے کے لیے رہنمائی اور
طاقت کا ذریعہ بن جائیں۔
ذاکر نائیک
Dr Zakir nike
کا کہنا ہےکہ اگر آپ کسی لڑکی کے والد یا رشتے دار ہیں اور اس معاملے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اس پوسٹ کا مطلوبہ معلومات کے ساتھ جواب بھیجیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنی پوسٹ میں تفصیل سے لکھا ہےکہ انہیں کیسی بہو درکار ہے۔
لڑکی کے لیے مطلوبہ
شرائط
ذاکر نائیک کے مطابق لازمی شرائط کے تحت لڑکی قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی اصولوں پر کاربند ہو اور فرائض کی پابند ہو،حرام چیزوں سے دور رہنے والی ہو اور جتنا ممکن ہوسکے مستحب (سنت) پر عمل کر
لڑکی نیک ہو ، سیدھے رستے پر چلنے والی ہو ، اچھے اخلاق کے ساتھ نرم دل اور ہمدرد ہو اور دعوت دین کےکاموں میں اپنے شوہر کا ساتھ دے اور اس کا حوصلہ بڑھائے، لڑکی خود بھی دعوت کے کاموں سے شغف رکھنے والی اور اسلامی تعلیمات کو پھیلانے میں دلچسپی رکھنے والی ہونی چاہیے۔
ذاکر نائیک کے مطابق لڑکی ایسی ہو جو عیش و عشرت کے بغیر سادہ زندگی گزارنےکی خواہش مند ہو ، انشاءاللہ میرا بیٹا اور اس کی بیوی ایک پرسکون زندگی گزاریں گے تاہم اس کے لیے اسے آسائشوں کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہوگا۔
2 مزید شرائط ہیں جن کے مطابق لڑکی انگریزی پر عبور رکھتی ہو اور ملائیشیا میں رہنےکے لیے تیار ہو۔
ڈاکٹر ذاکرنائیک نے بہوکے لیے مزید شرائط بھی رکھی ہیں جو کہ تمام لازمی تو نہیں تاہم ان میں سے اکثر ہوں تو اچھی بات ہے۔
ذاکر نائیک نے پوسٹ میں اپنے بیٹے کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں جن کے مطابق ان کے بیٹے فارق کی عمر 27 سال ہے اور اس کا قد 5 فٹ 7 انچ ہے، فارق نے سعودی عرب کی امام محمد بن سعود یونیورسٹی سے شریعہ میں بیچلر ڈگری حاصل کی ہے۔مزید شرائط girlکے مطابق لڑکی
فصیح عربی بولتی ہو، مسلمانوں اور غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرتی ہو ، اسلامیات کےکسی بھی شعبے میں بیچلر ڈگری رکھتی ہو ، قرآن کی حافظہ ہو، کسی اسلامی تنظیم میں سرگرم رہی ہو اور بڑی تعداد میں انگریزی زبان میں اسلامی اسکالرز کے بیانات سن رکھے ہوں۔z
Post پوسٹ
میں ذاکر نائیک نے اپنے بیٹےکی دلچسپیوں ، صلاحیتوں اور سرگرمیوں کو بیان کرنےکے ساتھ اپنی اور اہلیہ سمیت بیٹی کی تفصیلات بھی شیئر کی ہیں۔
پاکستان کی سول سروس میں کوئی نہ کوئی قدرت اللہ شہاب یا نسیم انور بیگ جیسا آدمی آہی جاتا ہے۔ ان جیسے اور بھی کردار ہوں گے مگر صرف دو کا حوالہ دے رہا ہوں کہ لوگ قدرت اللہ شہاب کو خوب جانتے ہیں، نسیم انور بیگ تو ابھی کل تک محفل جمایا کرتے تھے، گفتگو پاکستان کے گرد گھومتی تھی، دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں کا تذکرہ ہوتا تھا، شہاب نامے کے کئی واقعات لوگوں کا ایمان تازہ کرتے ہیں
۔ عجیب بات ہے جو بھی
پاکستان سے محبت کرتا ہے، قدرت اس کا نام روشن کردیتی ہے اور جو کوئی پاکستان سے بددیانتی کرتا ہے، رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج میں عہدِ حاضر کی بیوروکریسی میں شامل ایک شخص کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں، ہو سکتا ہے میں اس کا نام نہ لکھ سکوں مگر اس کے حالات سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ قدرت کیا کر سکتی ہے، تلخیوں کا دریا عبور کرنے والے کس طرح پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔یہ شخص سندھ کے ضلع خیرپور کے ایک عام سے گاؤں میں پیدا ہوا۔ ان کے گھر میں غربت انتہائوں کو چھو رہی تھی، یہ شخص بھوک، افلاس اور بےبسی میں پیدا ہوا۔ بچپن میں شوق پیدا ہوا کہ تعلیم حاصل کی جائے مگر سوال یہ تھا کہ شوق کی تکمیل کیسے ہو؟ اپنے گاؤں میں تو پرائمری اسکول بھی نہیں تھا ، ہاں چند کلومیٹر دور دوسرے گاؤں میں ہے۔ اس نے بھوک، افلاس اور بےبسی کےسامنے ہمت کو رکھ دیا۔ وہ دوسرے گاؤں میں گیا اور پہلی جماعت میں اپنا نام لکھوا آیا۔ اب ایک اور مرحلہ تھا کہ بستہ اور بستے کی چیزیں کہاں سے پوری کی جائیں؟ وہ ہر روز کلاس میں جاتا، کاپی، قاعدے اور بستے کی وجہ سے مار کھاتا، سبق دوسروں کی کتاب دیکھ کر یاد کر لیا کرتا۔ استاد اسے مارتا اور پوچھتا... ’’بستہ کیوں نہیں لائے، قاعدہ کہاں ہے، کاپی کدھر ہے؟...‘‘ وہ استاد کے سامنے خاموش رہتا۔ اسے مار پڑتے ہوئے کئی دن بیت گئے تو ہیڈ ماسٹر کو پتہ چل گیا کہ ہمارے اسکول میں ایک لڑکے کو مار محض اس لئے پڑتی ہے کہ اس کے پاس نہ بستہ ہے، نہ کتابیں۔ ہیڈ ماسٹر نے لڑکے کو بلوایا اور بستہ، کاپی، کتاب کے لئے کچھ پیسے دیے مگر لڑکے نے انکار کردیا، کہنے لگا... ’’جناب عالی! میری غیرت اجازت نہیں دیتی کہ یہ پیسے لوں، میں 14اگست کو تقریری مقابلے میں حصہ لوں گا، انعام جیتوں گا اور انعام کی رقم سے یہ سب چیزیں خرید لوں گا...‘‘ ظالمانہ رویہ رکھنے والے ماسٹر کو ہیڈ ماسٹر کی اس کرم نوازی کا علم ہوا تو اس نے لڑکے پر مزید ڈنڈے برسانا شروع کردیے۔ بس پھر ایک دن 14اگست آگیا، اس نے تقریری مقابلے میں حصے لیا، وہ جیت گیا لیکن وہی استاد ججوں میں شامل تھا، سب نے کہا کہ یہ لڑکا پہلے نمبر پر ہے مگر جج صاحب نے اسے دوسرے نمبر پر کردیا۔ اسے دوسرا انعام ملا اور سچل سرمست کی دھرتی کے فرزند نے استاد کی عزت کی خاطر اسے قبول کر لیا۔پرائمری پاس کی تو مڈل اسکول کے لئے تھوڑا اور دور جانا پڑا۔ وہاں صرف کتابوں کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ فیس بھی درکار تھی۔ اس نے جمع شدہ انعامی رقم سے فیس تو ادا کردی مگر کتابیں نہ لے سکا، کتابوں کی خریداری کے لئے اسے پھر سے 14اگست کا انتظار کرنا پڑا۔ مڈل کے بعد میٹرک کے لئے کوٹ ڈیجی جانا پڑا۔ اب اس نے اتنی رقم جمع کررکھی تھی کہ فیس اور کتابوں کا مسئلہ حل ہو گیا۔ ایف ایس سی میں خیر پور داخل ہوا تو پھر غریبی راہ میں حائل ہو گئی، اب فیس اور کتابوں کے علاوہ ہوسٹل
Hostel
کے اخراجات کا بھی سامنا تھا، یہاں بس تھوڑی دیر رہا اور گمبٹ میں داخلہ لے لیا، گمبٹ، خیر پور کی ایک تحصیل ہے، داخلہ ہو گیا مگر رہنے کا مسئلہ تھا پھر ماموں کی سفارش پر ایک صاحب نے رہائش دی لیکن یہ رہائش عجیب تھی، لڑکے کو بھینسوں کے باڑے میں سونا پڑتا، ہاں کھانا اسے مل جاتا تھا۔ یہاں اس نے ٹیوشنز پڑھائیں اور بی ایس سی کر گیا۔ بس وہ اتنا ہی پڑھ سکتا تھا، اس پر پہاڑ جتنی ذمہ داریاں تھیں، اس نے فارما سیوٹیکل کمپنی جوائن کی مگر یہاں اس کی دیانتداری آڑے آگئی، اس کا کہنا تھا کہ...’’جب ہماری دوائیاں اچھی ہیں تو ہم ڈاکٹروں کو پیسے کیوں دیں یا پھر ہماری دوائیاں اچھی نہیں ہیں، اس لئے ہم ڈاکٹروں کو پیسے دیتے ہیں...‘‘اس سوال کا جواب نہ ملا تو نوکری چھوڑ دی، اس نے اس طرح کی تین نوکریاں چھوڑیں پھر لاڑکانہ سے ایک اخبار شروع کیا، اخبار کےذریعے کرپشن کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تو مافیا سرگرم ہوگیا، اخبار کو کہیں سے کوئی اشتہار نہیں ملتا تھا، اسے بند کرنا پڑا۔
اب نوکری کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، اس نے سی ایس ایس کا امتحان دیا، پاس کیا تو فارن سروس کا گروپ ملا، وہ دفتر خارجہ میں گیا، اس کی ڈیوٹی ایک بابو کے ساتھ لگائی گئی، بابو نے معذرت کی کہ یہ لڑکا کسی بڑے تعلیمی ادارے سے نہیں پڑھا، میں اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا، ایک کے بعد دوسرے بابو نے انکار کیا تو ڈائریکٹر ایڈمن
Director Admin
کہنے لگا... ’’ بجٹ میں کوئی شخص نہیں جاتا، میں آپ کو بجٹ میں بھیج رہا ہوں‘‘ ...یہ بجٹ سیکشن میں چلا گیا، محنت نے رنگ دکھانا شروع کیا، اس وقت سیکرٹری خارجہ انعام الحق تھے، جب بھی ضرورت ہوتی انعام الحق اپنے اسٹاف سے کہتے... ’’نہ ڈی جی کو بلائو اور نہ ہی ڈائریکٹر کو، بس اس نوجوان سندھی سیکشن افسر کو بلا لو، اسے سب کچھ زبانی یاد ہے... ‘‘ اس کے بعد ’’انکاری بابوئوں‘‘ نے کہا ہمارے ساتھ آجائو مگر پھر اس کی غیرت نے گوارا نہ کیا۔یہ شاندار افسر اب بھی وزارت خارجہ میں ہے، اسے کسی بڑے ملک میں اس لئے نہیں بھیجا جاتا کہ اس کی لابنگ نہیں۔ وہ پاکستان سے محبت کرتا ہے، ہر وقت ملک کا سوچتا ہے، وہ جہاں جاتا ہے وہیں پاکستان کا نام روشن کردیتا ہے مگر اسے ایسے حالات کا سامنا ہے کہ بقول منیر نیازی ؎اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
نام بتائے دیتے ہیں
ا مظہر برلاس
پچھلے ہفتے وزارتِ خارجہ کے ایک افسر پر کالم کیا لکھا کہ ملک و بیرون ملک سے بےشمار قارئین نے پاک دھرتی کے اس ہیرے کا نام پوچھا جس نے غربت کی کوکھ میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور پھر سی ایس ایس کرکے شاندار خدمات انجام دے رہا ہے۔کالم کی طوالت کے خوف سے کچھ باتیں رہ گئی تھیں، پہلے وہ باتیں پھر کام اور پھر نام۔وہ غریب ضرور تھا مگر کلاس میں اول آتا تھا۔ کالج دور میں وہ مچھروں والی جگہ، بھینسوں کے باڑے میں سوتا تھا لیکن کلاس میں سی آر تھا، وہ اساتذہ کو پیریڈ میں لیٹ نہیں ہونے دیتا تھا۔کالج کے کئی لیٹ آنے والے ٹیچر اُس سے نالاں تھے مگر وہ اس ناراضی کی پروا نہیں کرتا تھا بلکہ اس کا موقف تھا کہ جب اساتذہ حکومت سے تنخواہ لیتے ہیں تو انہیں پڑھانا بھی چاہئے۔ ان اساتذہ
نے سارا غصہ پریکٹیکلز
Practicals
کے وقت نکالا اور اسے بہت کم نمبر دے کر صرف پاس کیا۔دورانِ تعلیم اس نے نوکری کے لئے کوشش کی مگر ناکام رہا کہ سفارش ہی نہیں تھی، اس نے پرائمری اسکول کا ٹیچر بننا چاہا تو ناکامی ملی پھر ہائی اسکول کا استاد بننا چاہا مگر یہاں بھی کامیابی نہ مل سکی۔ان ناکامیوں کے باوجود اس نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا، جب وہ کالج سے یونیورسٹی گیا تو داخلہ فیس کے لئے ڈھائی سو روپے نہیں تھے، والد سے کہا تو انہوں نے کہا کہ ’’بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے مزدوری کرتا ہوں، میرے پاس ڈھائی سو روپے نہیں ہیں‘‘ باپ کا جواب سن کر اس نے کہا کہ ’’کچھ بھی ہو جائے میں نے پڑھنا ہے‘‘۔بیٹے کا تعلیمی شوق دیکھ کر باپ نے ڈھائی سو روپیہ مجبوراً سود پر لیا اور بیٹے کو داخلہ فیس دے دی مگر صرف ڈھائی سو روپے سے کام کیسے چلتا؟ یہاں تو ہوسٹل میں رہنا تھا، تعلیمی اخراجات بھی تھے۔اس نے اس کا بھی حل نکالا، وہ سیدھا یونیورسٹی
University
کی مسجد کے امام کے پاس گیا، اسے کہا کہ رہنے کیلئے جگہ چاہئے۔ امام مسجد نے اس شرط پر رہنے کی اجازت دی کہ اسے کچھ بچوں کو پڑھانا ہوگا۔ خیر رہائش مل گئی مگر کچھ عرصے بعد اس نے یونیورسٹی کے طلبا کے لئے سائنس لیبارٹری کی اشیاء کا مطالبہ کر دیا۔وائس چانسلر کو پتہ چلا کہ یہ لڑکا یونیورسٹی کی سینٹرل مسجد میں رہتا ہے تو وی سی بہادر کا اختیار جاگا، اس نے امام مسجد کو بلوایا اور کہا کہ اس لڑکے کو فوراً نکال دو، ورنہ تمہاری نوکری ختم۔ امام مسجد نے نوکری بچائی اور اس لڑکے نے بھی کہیں اور بندوبست کر لیا۔وہ تین برس یونیورسٹی میں پڑھا اور ان تین برسوں میں وہ صرف دوپہر کا کھانا کھاتا تھا، ایسا نہیں تھا کہ وہ یہ کام شوق سے کرتا تھا، اس کی غربت تین وقتوں میں صرف ایک وقت کے کھانے کی اجازت دیتی تھی۔ اس دوران اس کا وزن ہمیشہ 45سے 48کلو کے درمیان رہا۔وزن خاک پورا ہوتا، جب کھانا ہی ایک وقت ملتا ہو تو پھر انڈر ویٹ ہونا تو یقینی ہو جاتا ہے۔ ان تین برسوں میں ایک دن ایسا آیا کہ اس کے پاس دوپہر کے کھانے کے لئے بھی پیسے نہ رہے۔ جب ہر طرف بےچارگی نظر آئی تو وہ اپنے خدا کے حضور پیش ہوا، اللہ سے نوکری مانگی، قدرت نے مہربانی کی تو اگلے ہی دن کوئی شخص اسے ڈھونڈتا ہوا آ گیا۔یوں اسے نوکری مل گئی، کچھ عرصے بعد یہ نوکری چھوڑ دی کہ مالکان کرپشن سے باز نہیں آتے تھے۔ پھر اخبار نکالا، پیسے ختم ہوئے Englishتو انگریزی
زبان سکھانے کے لئے ایک لینگوئج
Language
سنٹر بنا لیا، ساتھ ہی یونیورسٹی میں انگریزی ادب میں داخلہ لے لیا۔ اب اس کی چار ڈیوٹیاں تھیں۔اپنے بیوی بچوں کے لئے روزی روٹی کا بندوبست کرنا، لینگوئج سنٹر کو کامیابی سے چلانا، یونیورسٹی میں خود پڑھنا اور اس کے بعد سی ایس ایس کی تیاری کرنا۔ اس کا یونیورسٹی میں شعبۂ انگریزی کے سربراہ سے اختلاف ہوا، اس کا موقف تھا کہ انگریزی کے استاد ہمیں ہفتے میں صرف ایک دو دن پڑھاتے ہیں، پورے چھ دن کیوں نہیں پڑھاتے؟وائس چانسلر کچھ نہ کر سکا تو اس لڑکے نے گورنر سندھ معین الدین حیدر کو خط لکھ دیا، گورنر کی مداخلت کے بعد شعبۂ انگریزی کے اساتذہ نے پڑھانا تو شروع کر دیا لیکن شعبے کا سربراہ اس لڑکے کے خلاف ہو گیا، اس نے بڑی خاموشی سے فیڈرل سروس کمیشن کے چیئرمین کو خط لکھا کہ ’’فلاں نام کے لڑکے نے سی ایس ایس کا امتحان دیا ہے مگر وہ سندھو دیش کا حامی ہے، جئے سندھ کے لئے کام کرتا ہے‘‘۔اس نے تحریری امتحان پاس کیا، اسے انٹرویو کے وقت سارے سوال جی ایم سید، سندھو دیش اور جئے سندھ پر کئے گئے، وہ بہت حیران تھا کہ مجھے یہ سوال کیوں کئے گئے ہیں، خیر وہ کلیئر ہو گیا مگر اس کا گروپ انفارمیشن آیا لیکن اس کی خواہش فارن افیئرز تھی، اس نے دوبارہ امتحان دینے کا فیصلہ کیا، اس دوران وہ آرمی پبلک کالج پنوں عاقل میں لیکچرار بھرتی ہو گیا، اس نے وہاں ایک بریگیڈیئر کو یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی کے سربراہ کی طرف سے لکھے گئے خط کا قصہ سنایا تو فوجی سیدھا ہو گیا، اس نے اس پروفیسر کو بلا کر پوری طرح چابی دی اور کہا ’’تم نے پنجابیوں کو بدنام کیا ہے، تم ایک غیرت مند اور محب وطن سندھی کو غدار ثابت کرنا چاہتے ہو، تم سے اس کی ذہانت برداشت نہیں ہوئی‘‘۔اس چابی کے بعد پروفیسر نیا خط لکھنا بھول گیا۔ اس نے دوبارہ سی ایس ایس کیا، اس مرتبہ اسے کسی نے سندھو دیش کا نہ پوچھا، کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ جئے سندھ کونسی جماعت ہے؟ اب کی بار وہ اپنے پسندیدہ گروپ میں آ گیا۔اس نے دفتر خارجہ کو جوائن کیا تو ’’ڈومیسائل‘‘ کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ابھی تو ادھوری باتیں مکمل ہوئی ہیں، اگلے کالم میں اس مرد مجاہد کے وہ کام لکھوں گا جو اس نے وطن کی محبت میں کئے۔ ساتھ ہی اس کا نام بھی بتا دوں گا۔ فی الحال افتخار عارف کا شعر پیش خدمت ہے کہ ؎مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نےوہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے.
حصہ دوم
گزشتہ دو کالموں میں جس شخصیت کا تذکرہ ہوا اُس سے متعلق لوگوں کی تشنگی بڑھی مگر عرض کیا تھا کہ پہلے کام پھر نام بتائوں گا۔سی ایس ایس تک پہنچنے سے پہلے اسے شدید بیماری سے گزرنا پڑا، وہ اپنے پروفیسر کے ساتھ مل کر ٹی بی پر ریسرچ کر رہا تھا کہ اسے خود ٹی بی ہو گئی، وہ بستر پر پڑا تھا تو ایک عورت نے اس کے والدین سے کہا ’’آپ کا ذہین اور خوبصورت بچہ مر رہا ہے‘‘۔آواز کان میں پڑی تو کہنے لگا ’’محترمہ! کسی بیمار سے متعلق ایسے نہیں کہتے، میں مروں گا نہیں، ان شاء اللّٰہ زندہ رہوں گا‘‘۔ اس نے دعا کی کہ اے خدا مجھے اس حالت میں موت نہ دینا بلکہ امام حسینؓ کی طرح شہادت دینا۔وہ ٹھیک ہو گیا، سی ایس ایس کر کے وزارتِ خارجہ میں گیا تو ایک صاحب اور صاحبہ نے اُسے محض ڈومیسائل کی وجہ سے قبول نہ کیا، ساتھ ہی تبصرہ فرمایا کہ یہ کسی بڑے ادارے کا پڑھا ہوا نہیں۔وہ بجٹ سیکشن میں چلا گیا، اس نے سیکرٹری خارجہ انعام الحق کو بےحد متاثر کیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ اسے وہ گائوں یاد آیا جہاں غربت کے آنگن میں آنکھ کھولی تھی، اس نے گائوں میں اسکول قائم کیا، غریب ذہین بچوں کیلئے 30فیصد کوٹہ مقرر کیا تاکہ کوئی غربت میں جنم لینے والا بچہ تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ایک کلینک بنایا کہ غریب کا علاج بھی ہو سکے، اب وہ گائوں میں ووکیشنل کالج بنوا رہا ہے، لوگوں کی خدمت کیلئے وہ سیاست کرنا چاہتا تھامگر غربت سفارت کاری کی طرف لے آئی۔شاید یہ ہمارا اکلوتا سفارت کار ہے جو اپنے بچوں کے لئے نہ کسی ملک کی شہریت چاہتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک سے کوئی ذاتی فائدہ۔ جہاں جاتا ہے صرف پاکستان اور پاکستانیوں کا سوچتا ہے، اسے کبھی ڈھنگ کی پوسٹنگ نہیں دی گئی بلکہ جہاں کوئی نہیں جاتا، اسے بھیج دیا جاتا ہے۔وہ جہاں بھی گیا مشکلات اس کی منتظر تھیں، کبھی اسے عراق بھیج دیا گیا تو کبھی یمن مگر اس نے ہمیشہ پاکستان کیلئے کام کیا۔ وہ جدہ میں قونصل جنرل نہیں بلکہ پاسپورٹ انچارج تھا، اس نے جدہ میں بڑا اسکینڈل پکڑا، پاکستانی قونصل خانے سے غیرملکیوں کو پاکستانی پاسپورٹ بیچے جاتے تھے، بڑے خریداروں میں افغانی اور برمی تھے، اس نے اسٹینڈ لیا، جونیئر افسر ہوتے ہوئے اپنے سینئر کے خلاف انکوائری کروائی اور یہ سلسلہ رکوایا، کیریئر کو دائو پر لگا کر یہ کام کیا۔اکتوبر 2005میں زلزلہ آیا تو اسے فکر لاحق ہوئی، وہ دن بھر ڈیوٹی دیتا اور شام کو زلزلہ زدگان کے لئے امدادی اشیاء اور چندہ اکٹھا کرتا۔خدمات کے صلے میں جب اعزازات کے لئے فارم بھرے جا رہے تھے تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’یہ خدمات تو میں نے اپنے ہم وطنوں کے لئے انجام دی ہیں، اس لئے نہیں کہ تمغے ملیں بلکہ اپنے لوگوں کی خدمت کرنا مجھ پر فرض ہے‘‘۔جدہ سے ٹرانسفر ہواتو پاکستانیوں نے محبت دکھائی، اس کے لئے 72تقریبات منعقد کی گئیں پھر یمن میں پوسٹنگ کر دی گئی، وہ یمن میں صرف پانچ مہینے قائم مقام سفیر رہا، اس نے پاکستان انٹرنیشنل اسکول کو بہترین بنایا اور پاکستان کی برآمدات کو ڈبل کر دیا، اس طرح وہ وزارتِ خارجہ کا پہلا افسر بنا، جن کو منسٹری آف کامرس نے آئوٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس ایوارڈ دیا۔یمن میں ایک سیاسی سفیر آ گیا، اسے آتے ہی یہ فکرمندی ہوئی کہ ڈپٹی ایمبیسڈر بہت مقبول ہے۔ یمن میں ایک سعودی اسپتال میں پاکستانی ڈاکٹروں اور نرسوں کی تنخواہیں روکی گئیں تو یہ مردِ مجاہد کھڑا ہو گیا اور ہم وطنوں کی تنخواہیں نکلوانے میں کامیاب رہا۔اس پر سیاسی سفیر نے وزیراعظم گیلانی کو خط لکھا کہ ’’ہمارے ڈپٹی ایمبیسڈر نے امریکہ کے خلاف "DEATH OF AMERICAN EMPIRE"نامی کتاب لکھی ہے‘‘، واضح رہے کہ یہ کتاب 2008میں لکھی گئی تھی۔خیر سیاسی سفیر کے کہنے پر اسے نائیجیریا ٹرانسفر کر دیا گیا، وہاں پہلے ہی سال ایکسپورٹ ڈبل ہو گئی تو منسٹری آف کامرس نے دوبارہ آئوٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس ایوارڈ دیا۔ اتنا کام کیا کہ گیارہ سو بزنس مینوں کو پاکستان بھجوایا، وفود کا تبادلہ ہوا، نائیجیریا کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان کا دورہ کرنے والے نائیجیریا کے یہ دوسرے صدر تھے۔نائیجیریا میں ایک نان کیریئر ڈپلومیٹ خائف ہوا تو الزامات کے ساتھ شکایت کر دی، اسے ہٹا دیا گیا، بحال ہوا تو نائیجیریا سے جڑے ہوئے افریقی ملک نائیجر بھیج دیا گیا، ایک سال میں وہاں سے بھارتی لابی کا صفایا کیا، پاکستان کی برآمدات کو ایک ملین سے 26ملین ڈالرز تک پہنچایا۔جب موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس مجاہد کو دیکھا تو پہلے بہت تلملائے مگر پھر کارکردگی دیکھ کر اتنے معترف ہوئے کہ سیکرٹری خارجہ سے کہنے لگے ’’مجھے اس طرح کے سفیر چاہئیں جو بظاہر درویش دکھائی دیں مگر ان کی کارکردگی شاندار ہو‘‘۔پھر سیکرٹری خارجہ نے کہا ’’یہ ہمارے زبردست اور شاندار سفیر ہیں‘‘، اس آدمی کا نام احمد علی سروہی ہے، جوآج کل نائیجر میں پاکستان کا سفیر ہے، اس کی وجہ سے نائیجر کی پارلیمنٹ کے صدر اور دو اہم وزراء پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔سولہ ستمبر کو وزارتِ تجارت یا کسی بھی وزارت کے تعاون کے بغیر پاک نائیجر ٹریڈ کانفرنس ہو رہی ہے جس کا افتتاح نائیجر کے صدر اور اختتام وہاں کے وزیراعظم کریں گے۔احمد علی سروہی اقتصادی سفارت کاری کے ماہر ہیں مگر انہیں کسی بڑے ملک میں تعینات نہیں کیا جاتا۔ اکنامک ڈپلومیسی پر ان کی کتاب باقی سفیروں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ بقول فیضؔ؎ہم خستہ تنوں سے محتسبوکیا مال منال کا پوچھتے ہوجو عمر سے ہم نے بھر پایاسب سامنے لائے دیتے ہیںدامن میں ہے مشت خاکِ جگرساغر میں ہے خون حسرت مےلو ہم نے دامن جھاڑ دیالو جام الٹائے دیتے ہیں
اس کا انجام ساری دنیا نے دیکھ لیا۔ جگر کے جن ٹکڑوں کے لیے اللہ کی مخلوق کی گردن پر پاؤں رکھ کر اللہ کی مخلوق کو نچوڑتا رہا، خون پیتا رہا‘ جگر کے ان ٹکڑوں میں سے کوئی کام نہ آیا۔ وہ سب بحر اوقیانوس پار کر گئے اور ایک عشرت بھری لگژری سے بھرپور زندگی گزارنے luxuryمیں مصروف ہو گئے۔
جن لوگوں کا خون چوستا رہا، وہ اپنی زندگی بھر کی خون پسینے کی کمائی کے پیچھے بھاگتے رہے، پامال ہوتے رہے، ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ان کی حیثیت اُس مٹی کی تھی جو پاؤں کے نیچے آتی رہتی ہے۔ کبھی اس مٹی پر بوٹوں والے چلتے ہیں کبھی ڈھور ڈنگر! کبھی اس مٹی کو پانی بہا لے جاتا ہے اور یہ کسی گہرے گڑھے میں جا گرتی ہے‘ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس مٹی کا کوئی پرسان حال کبھی بھی نہیں ہو گا، تو وہ اندھا ہے یا .......احمق یا مجنون !
اس نے گھر بنایا تو ایسا کہ ایسٹ انڈیا کمپنیEast India Company
کے لاٹ صاحب کا کلکتہ والا گھر اس گھر کے سامنے چمار گھر لگتا تھا۔ سالہا سال یہ گھر بنتا رہا۔ لوگ اس گھر کو بنتا، اوپر جاتا، چوڑا ہوتا دیکھتے رہے۔ دیکھنے والوں کو اس گھر کے سامنے اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوتا۔ انہیں یوں محسوس ہوتا جیسے وہ اس قصر کے سامنے زمین پر رینگنے والے کیڑے ہیں۔ راج، معمار، مزدور، بڑھئی، لوہار، نقاش، ہنر مند، روبوٹ بن کر کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ شداد کی یہ جنت مکمل ہو گئی۔
پھر حساب کے دن کا آغاز ہو گیا۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ صبح سب کے لیے روشنی کا پیغام نہیں لاتی۔ یہ کچھ کے لیے نجات کا سبب بنتی ہے تو کچھ کے لیے عذاب کا۔ پو پھٹے غنچے کھل کر پھولوں کا روپ دھارتے ہیں اور یہ تڑکے کا وقت ہوتا ہے جب قیدی کو دار پر چڑھایا جاتا ہے! اِنَّ مَوْعِدَہُمُ الصُّبْحُ -اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْب۔ ہائے وعدے کا وقت صبح ہے اور صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے! اسے بیماری لگ گئی! ایسی جس کا علاج روئے زمین پر نہ تھا۔ اربوں کھربوں کے اس مالک کو کوئی ایسا طبیب، کوئی جراح، کوئی وید، کوئی سنیاسی کوئی جوگی، نہ ملا جو تندرست ہونے میں اس کی مدد کرتا۔ ظاہر ہے کہ روحانی علاج بھی کیا گیا ہو گا۔ دعائیں، تعو یذ‘ پانی جس پر آیاتِ شفا پڑھ کر پُھونکی گئیں، کیا کچھ نہ ہوا۔ ایوب نبی بیمار ہوئے تھے تو پکار اٹھے میرے رب! مجھے لگ گئی بیماری ! اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ وہ پیغمبر تھے ۔ پیغمبر کے دامن کی شفافیت کا کیا ہی کہنا! کچھ بزرگ بیماری میں دعائے ایوب پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ نہیں پوچھتے کہ کسی کا حق تو نہیں مارا؟ کسی غریب کا مال تو نہیں ہڑپ کیا؟ کسی مزدور کی مزدوری تو تمہارے ذمہ نہیں؟ کسی رشتہ دار سے تعلق تو نہیں قطع کیا؟ کسی کی زمین، کسی کی پگڈنڈی، کسی کا کھیت تو نہیں دبایا ہوا؟ کسی کے مقروض تو نہیں؟ بہر طور کوئی دوا کارگر نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ اربوں کھربوں روپوں اور ڈالروں کی موجودگی میں اس کے سانسوں کی میعاد بڑھ نہ سکی۔ اب یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ پُر اسرار ، لا علاج بیماری کا سبب وہ چیخیں اور آہیں کیسے ہو گئیں جو فلک کے اُس پار پہنچیں! بجا فرمایا۔ کوئی ثبوت نہیں! کوئی گواہی نہیں! مگر اس امر کے شواہد بھی تو ناپید ہیں کہ پُراسرار ، لا علاج بیماری کا کوئی تعلق، کوئی کنکشن،
Connection
چیخوں اور آہوں سے نہیں! ہاں تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں! صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے ! جو سمجھتا ہے کہ دونوں چیزوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تو وہ خلق خدا کے ساتھ وہی کچھ کر کے دیکھے جو اس شخص نے کیا۔ پھر اگر اس کا انجام خوشگوار اور قابلِ رشک ہوا تو وہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب شمار ہو گا!
موت کا سُن کر لوگ جوق در جوق پہنچے۔ ان کے ہاتھوں میں پنج سورے تھے نہ تسبیحیں! وہ دعائے مغفرت کرنے آرہے تھے نہ پس ماندگان سے اظہار افسوس کے لیے۔ ان کے ہاتھوں میں بینر تھے جن پر مطالبات درج تھے اور بد دعائیں! وہ مرنے والے کو کوس رہے تھے۔ اپنی ڈوبی ہوئی رقوم مانگ رہے تھے‘ مگر وہ جو، ان کا مجرم تھا وہ تو اب خالی ہاتھ تھا۔ اس کے کفن میں کوئی جیب نہ تھی۔ افسوس وہ کچھ بھی نہ ساتھ لے جا سکا۔ سب کچھ پیچھے رہ گیا اور یہ سب کچھ جو پیچھے رہ گیا، دوسروں کے قبضے میں چلا گیا۔ اُس کی چَیک بُکیں، اُس کے لاکر، اُس کی تجوریاں، اس کی ملکیتی دستاویزات، اس کی کرنسیوں کے ڈھیر، سب اس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد ایک ثانیے کے اندر اندر، اس کے نہ رہے۔ ہو سکتا ہے موت کے بعد وہ یہ مطالبات، یہ بد دعائیں، یہ وحشت ناک کوسنے سُن رہا ہو، ہو سکتا ہے وہ یہ بینر پڑھ رہا ہو مگر ایک تہی دست ، قلاش، کنگال، مفلوک الحال ، خراب و خوار شخص کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ جب اس کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا، جب اسے لحد میں اتارا جا رہا تھا، جب اس کے بدن سے کچھ اِنچ اوپر، پتھر کی سِلیں رکھی جا رہی تھیں، جب ان سلوں کے درمیان نظر آنے والے گَیپ گارے سے بھرے جا رہے تھے، جب منوں مٹی ڈالی جا رہی تھی، جب مٹی کا یہ ڈھیر قبر کی صورت اختیار کر رہا تھا تو یہ سارا وقت اس کے ہاتھوں زخمائے لوگ مسلسل مطالبے کر رہے تھے ، بد دعائیں دے رہے تھے اور جھولیاں اُٹھا اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
مگر یہ کہانی پوری نہیں ہوئی۔ اس کہانی کا ایک حصہ رہتا ہے۔ جب یہ معاملہ اُس وقت کے چیف جسٹس کے پاس گیا تھا تو انصاف یوں ظہور پذیر ہوا تھا کہ ملزم کا بیٹا یف جسٹس کی دختر کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھ گیا تھا۔ سو، کہانی ابھی نامکمل ہے۔ کہانی منتظر ہے۔ کہانی اپنا انجام دیکھنے کے لیے ساعتیں گِن رہی ہے۔
یاد نہیں مرزا فرحت اللہ بیگ نے یہ قصہ اپنے اوپر چسپاں کیا ہے یا کسی اور کردار پر۔ بہر حال قصہ یوں ہے کہ قانون کے امتحان میں سوال آیا کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو قتل کر دیا۔ قتل کے دو گواہ موجود ہیں۔ مقتول کے پسماندگان میں بیوہ اور دو بچے ہیں۔ کیس کا فیصلہ کرو۔ ہونہار امیدوار نے فیصلہ کیا کہ دونوں بچوں کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا جائے۔ گواہوں کو سیدھا جیل میں بند کر دیا جائے۔ رہے قاتل اور مقتول کی بیوہ، تو ان دونوں کی شادی کر دی جائے! انصاف کی بھی کیا کیا صورتیں ہیں! اندھے کوتوال لگ جاتے ہیں۔ توتلے داستان گو بن جاتے ہیں ۔ حکم ہوتا ہے کہ آئندہ نائیجیریا، زیمبیا اور چاڈ، یورپ کا حصہ سمجھے جائیں گے۔ نقشے میں ہمالہ کو بحرالکاہل کے درمیان دکھایا جائے گا۔ دنیا کا گرم ترین مقام الاسکا ہو گا اور سرد ترین جیکب آباد! جس وقت پُل منہدم ہوا اُس وقت پُل پر سے ہاتھی گزر رہا تھا۔ عین اُسی وقت چیونٹی بھی پُل پر چل رہی تھی۔ چنانچہ پُل گرانے کی فرد جرم چیونٹی پر عائد کی گئی۔ پرانی بات ہے۔ ہمارے دوست اجمل نیازی صاحب نے اخبار میں لکھا کہ اُس وقت کا پنڈی کا کمشنر چونسٹھ پلاٹوں کا مالک ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تریسٹھ بھی نہیں پورے چونسٹھ! اس کے فوراً بعد کمشنر صاحب کا درجہ بلند تر کر کے انہیں پی ٹی وی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ عجائبات کی سرزمین ہے۔ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ ماشکی بادشاہ بن سکتا ہے۔ کینیڈا کا طبیب آئل منسٹر لگ سکتا ہے اور قاضیٔ شہر ملزم کا سمدھی بن سکتا ہے!
کورونا سے جاں بحق افراد کے ورثا غسل، جنازے اور تدفین میں شامل ہو سکیں گے جبکہ میت کو تابوت میں رکھ کر دفنانے کی
شرط ختم کر دی گئی ہے۔
تفصیل کے مطابق کورونا وائرس سے انتقال کرنے والوں کی تدفین کے معاملہ پر حکومت نے ایس او پیز میں نرمی کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی سفارشات این سی او سی کو ارسال کر دی ہیں۔
پنجاب حکومت کی جانب سے بھجوائی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ اس وقت انتقال کرنے والوں کی تدفین تابوت میں رکھ کی جا رہی ہے، اب تاہم میت کو پلاسٹک میں کور کیا جائے گا۔
اس کے علاوہاہلخانہ اور رشتہ دار بھی نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں گے جبکہ میت کو کندھا بھی دیا جا سکے گا۔ غسل کے لیے حفاظتی لباس کا استعمال کیا جائے گا۔
ایس او پیز کے تحت میت کوچھونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ورثا اپنے پیاروں کا چہرہ دیکھ سکیں گے۔ خاندان کے افراد میت کو غسل دے سکیں گے۔
اداکارہ و میزبان جویریہ سعود کاکہناہے کہ میں ’’ارطغرل غازی ‘‘کی محبت میں گرفتار ہوگئی ہوں،اس ترک ڈرامہ سیریل نے میری روح کو چھوا ہے۔۔۔
اداکارہ نے سوشل میڈیا پر ڈرامہ سیریل کیلئے تعریفی پیغام لکھاہے ۔۔
،انہوں نے ڈرامے کا ایک پوسٹر بھی شیئر کیا۔ ۔جویریہ سعود نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ اس ترک ڈرامہ سیریل میں دین اسلام، ایک حقیقی مسلمان اور سنتوں کو عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے جو مغربی سامعین بھی دیکھ رہے ہونگے۔۔ ۔ ارطغرل غازی میں مسلمانوں کی وہ تاریخ دکھائی گئی ہے جو اکثر مغربی ثقافتی تاریخ میں ہمیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
نیب کی تفتیش کے دوران نیب کے افسران نے ایسا کیا دکھایا کہ شہباز شریف کو پسینہ آگیا؟ جانئے اندرونی کہانی۔.
مسلم لیگ (ن) کے صدر، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور منی لانڈرنگ کرنے کے سنگین الزامات کے تحت ان کے خلاف نئے زیر تحقیقات مقدمے میں گرفتاری کا امکان کافی بڑھ گیا ہے۔ اگر 17 جون کو لاہور ہائیکورٹ نے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کرتے ہوئے انہیں گرفتاری سے مزید تحفظ نہ دیا تو امکان ہے کہ انہیں نیب تحویل میں لے لیا جائے گا۔۔ ۔۔
دوسری طرف سابق وزیراعظم عباسی، احسن اقبال اور رانا ثنا اللہ جیسے ن لیگ کے پاکستان میں موجود دیگر مرکزی قائدین پر بھی نیب کی طرف سے ہاتھ ڈالے جانے کا امکان ہے جبکہ نیب کی کارروائی کو متوازن بنانے اور نیب کے غیر جانبدار ہونے کا تاثر دینے کی غرض سے وفاقی وزیر عامر کیانی اور وزیراعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف بھی نیب کارروائی کر سکتی ہے۔۔ ۔۔
نیب ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اس وقت سکتے میں رہ گئے، جب نیب کے تفتیش کاروں نے ایسی ٹی ٹیز کا ریکارڈ ان کے سامنے رکھا، جن کے ذریعے بھاری رقوم ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ن لیگ کے صدر کو اپنے اکاؤنٹ کے حوالے سے ریکارڈ دیکھ کر پسینہ آ گیا، تاہم چند لمحوں میں انہوں نے خود کو سنبھالا، تفتیشی افسران سے کاغذ قلم مانگا اور ان تمام ٹی ٹیز وغیرہ کے نمبرز نوٹ کر کے کہا کہ میں چیک کر کے اس کا جواب دوں گا۔ اس دوران شہباز شریف پانی بھی پیتے رہے۔۔۔ ۔۔
نیب ذرائع کے مطابق منگل کو سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جب نیب کے لاہور دفتر میں پیش ہوئے تو نیب کے تفتیشی حکام ان سے سوا گھنٹہ تک مسلسل سوالات کرتے رہے، تفتیشی افسران نے پہلے شہباز شریف کے آگے کچھ ٹی ٹیز کا ریکارڈ رکھتے ہوئے پوچھا کہ ان ٹی ٹیز کے ذریعے اتنی رقم آپ کے بیٹے سلیمان شہباز کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی تو شہبازشریف نے کہا کہ یہ میرے علم میں نہیں۔ تفتیش کاروں نے پھر کچھ اور ٹی ٹیز کا ریکارڈ سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ ان کے ذریعے اتنی رقوم حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئیں، اس سے بھی شہباز شریف نے لاعلمی ظاہر کی تو حکام نے بعض دیگر ٹی ٹیز کا ریکارڈ دکھاتے ہوئے انہیں بتایا کہ ان کے ذریعے اتنی رقوم ان کی اہلیہ نصرت شہباز کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی۔ سابق وزیراعلیٰ نے اس سے بھی لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس کا نہیں پتہ، ان سے پوچھیں۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ پھر نیب کے تفتیشی افسران نے کچھ مزید ٹی ٹیز کا ریکارڈ ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ان ٹی ٹیز کے ذریعے آپ کے داماد علی عمران کے اکاؤنٹ میں اتنی رقوم جمع کروائی گئیں، کیا آپ کے بیٹوں اور داماد نے کرپشن کی ہے؟ تو خادم اعلیٰ نے جواب میں کہا کہ کی ہوگی، یہ سب میرے علم میں نہیں، آپ ان سے پوچھیں۔
ذرائع کے مطابق اس کے بعد اپوزیشن لیڈر سے آمدن سے زائد اثاثوں اور مبینہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب کی پوچھ گچھ کے اس سیشن میں ڈرامائی موڑ آگیا، جب تفتیشی افسران نے بعض ایسی ٹی ٹیز کا ریکارڈ شہبازشریف کے آگے رکھ دیا جس کی رو سے خطیر رقوم ان کے اپنے نام کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی تھیں۔ نیب حکام نے ان سے پوچھا کہ اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اب آپ کیا کہتے ہیں؟ تو ن لیگ کے صدر یہ سب دیکھ کر ایک لمحے کے لئے ششدر رہ گئے اور بہت اپ سیٹ دکھائی دیے۔
ذرائع کے مطابق چند لمحے خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کاغذ قلم اور پانی کا گلاس طلب کیا۔ مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے متذکرہ ٹی ٹیز اور چیک وغیرہ کے نمبرز اور تاریخیں نوٹ کیں اور کہا کہ وہ اپنے بینک اریکارڈ کو چیک کروا کے اس کا جواب دیں گے۔
دورہ انگلینڈ کے لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ بننے والے یونس
خان کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کی تربیت کیلئے باب وولمر کا انداز اپنانے کی کوشش کروں گا تاکہ ہر پلیئر کو اس کے لیول کے مطابق بتایا جاسکے، ریٹائرمنٹ کے بعد بہت کچھ سیکھا ہے، کوشش ہوگی کہ نہ صرف کرکٹ بلکہ زندگی کے تجربات سے بھی پلیئرز کو مستفید کرایا جاسکے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی منیجمنٹ میں شامل ہونے کے بعد میڈیا کے ساتھ وڈیو کانفرنس میں یونس خان نے کہا کہ انگلینڈ کی سیریز ہمیشہ مشکل ہوتی ہے، کوشش ہوگی کہ وہ پلیئرز کو ان کی حدود میں رہتے ہوئے یہ گر سکھائیں کہ بڑی اننگز کیسے کھیلنی ہے اور کیسے سنچری کو ڈبل اور ٹرپل سنچری میں تبدیل کرنا ہے۔
یونس خان نے کہا کہ وہ یہ بہانہ نہیں بنائیں گے کہ محدود وقت تھا اس لیے کچھ نہیں کرسکے، اگر کام کرنا ہو تو ایک دن بھی کافی ہوتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے والے یونس خان کا کہنا تھا کہ وہ کوچنگ میں باب وولمر کے انداز سے کافی متاثر رہے ہیں اور کوشش ہوگی کہ اس انداز میں ہی ٹیم کے بیٹسمینوں کو سکھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تین سالوں میں ان میں کافی عاجزی آئی ہے اور وہ اس بات کی گارنٹی دیتے ہیں کہ کوچنگ اسٹاف میں کسی سے انا کا مسئلہ نہیں ہوگا۔
یونس خان نے کہا کہ وہ تنقید ہمیشہ تحمل مزاجی سے سنتے رہے اور پھر جارح مزاجی سے اپنے کھیل کو بہتر کرتے ہوئے اس تنقید کا جواب دیتے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کیریئر میں بہت کچھ حاصل کیا لیکن جو کچھ کرکٹ کیریئر میں حاصل کیا وہ ماضی کا حصہ ہے۔
ایک سوال پر سابق کپتان کا کہنا تھا کہ اظہر علی اور اسد شفیق پر ان کے اور مصباح کے ریٹائرمنٹ کے بعد بھاری ذمہ داریاں آگئی تھیں، بطور کوچ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ ان تمام پلیئرز کے اسکلز سے زیادہ ان کو ذہنی طور پر پختہ بنانے میں کردار ادا کریں، کوشش کریں گے کہ پلیئرز کو ڈبل مائنڈ نہ کریں کیوں کہ مصباح الحق پہلے ہی ان کو بہت کچھ سکھا ..چکے ہوں گے۔
یونس خان کا کہنا تھا کہ کوچز کا کام پلیئرز کی سہولت کاری ہوتا ہے، بابر اعظم کا فی الحال کوہلی سے موازنہ مناسب نہیں، پانچ سال بعد بابر اعظم کا آج کے کوہلی سے موازنہ کیا جائے، بابر اچھا پلیئر ہے اور اگر ایک پلیئر یہ عہد کرلے کہ اسے زندگی میں کچھ اہداف حاصل کرنے ہیں.. تو وہ انہیں ضرور حاصل کرتا ہے۔.. مصباح کے ساتھ فاتحانہ انداز میں کرکٹ چھوڑی اور دوبارہ ایک نیا سفر بھی فاتحانہ انداز میں شروع کرنے کی خواہش ہے